رہبر و رہنما...... مصطفے مصطفے

in urdu •  last year 

20221023_190633.jpg


!السلام علیکم میرے پیارے بلرٹ فرینڈس
آپ سبھی کا میرے بلوغ میں دل سے خوش آمدید
ساتھ ہی امید کہ آپ سب خیر و عافیت سے ہوں گے


" یہ کون سا دور ہے میرے اللہ۔۔۔؟؟؟ "
" میں کس دور میں پیدا ہوگئی ہوں۔۔۔؟؟؟ "
" کیا میرے اللہ، تجھے مالک حقیقی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبی برحق سمجھنے کی اتنی بڑی سزا۔۔۔؟؟؟ "

" آخر یہ سب جھگڑا کیا ہے۔۔۔؟ "
اس واقعے سے چند ہفتے پہلے ایک روز اس نے عثمان سے پوچھا تھا۔۔۔ " وہ بھی مسلمان ہیں۔۔۔ نماز پڑھتے ہیں، حج کرتے ہیں۔۔ وہ بھی اللہ کو اللہ سمجھتے ہیں، نبی آخر الزماں کو اپنا نبی سمجھتے ہیں۔۔ پھر یہ جھگڑا کیوں۔۔؟ "

" بہت ہی سادہ "
عثمان ہنس دیا تھا۔۔
" وہ اللہ کو اللہ سمجھتے ہیں، جب کسی مصیبت میں انھیں اللہ کی ضرورت پڑتی ہے۔۔ وہ قرآن کو برکت کے طور پر اپنے گھر رکھتے ہیں، اپنے مردے بخشوانے کے لیے یا نکاح پڑھوانے کے لیے انھیں قرآنی آیات کی ضرورت پڑتی ہے۔۔ باقی عیسائیوں، یہودیوں کے ہاتھوں اپنی امت کو بیچتے ہوئے اپنی رعایا کے سودے کرتے ہوئے مال کے عوض اپنے وہ جوان بیچتے ہوئے، جن سے کفر کے ایوانوں میں لرزا طاری ہو، وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہچکچاتے۔۔۔ اپنے مفاد کے لیے عدل کا خون کرتے ہوئے، اپنی گھریلو زندگیوں میں حرام کرتے ہوئے، وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ انکی قانون کی کتاب میں کیا لکھا۔۔۔؟ "

" یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود۔۔"

" سنو سارہ، یہ منافقین کی مسلح اور غیر مسلح سپاہ ہے، جو اسلام کے نام پر اسلام کا استحصال کر رہی ہے۔۔ یہ اپنے اپنے دلوں میں نفاذ اسلام کے عیسائیوں اور یہودیوں سے بھی زیادہ مخالف ہیں۔۔ اسی لیے تو اسلام کے خلاف یہ ان سے بھی بڑھ چڑھ کر سازشیں کرتے ہیں۔۔۔"

آہ۔۔! اس کے پیروں سے درد کی لہر سی اٹھی۔۔ اس جگہ کھڑے اسے جانے کتنے گھنٹے ہو چکے تھے۔۔ تہجد کا وقت ہو چکا تھا۔۔ کمرے کی طرف پلٹتی ایک دفعہ پھر وہ کسی اور یاد میں ڈوب گئی۔۔

دونوں باپ بیٹا کو گئے تین سال بیت گئے تھے۔۔ طویل تین سال۔۔ ان تین برسوں پر پھیلے سیکڑوں طویل پُردرد اور انتظار میں ڈوبے رسیدہ دن کئی سو طویل تنہا اور خوفزدہ کر دینے والی خوفناک راتیں۔۔

شروع شروع میں اسے اور اسکی بچیوں کو بھی بہت ہراساں کیا گیا، مگر پھر آہستہ آہستہ انھیں تھانے کی حاضری سے چھوٹ مل گئی۔۔ مگر وہ دونوں میاں بیوی، جو اپنے حلقے میں بہت ہی مقبول اور ہردلعزیز تھے۔۔ آہستہ آہستہ لوگ ان سے کٹنے لگے۔۔۔
وہ اگر کبھی کسی کے گھر جاتی تو گھر والوں نے کہیں جانا ہوتا ۔۔ وہ اگر کسی کو فون کرتی تو آواز کی خرابی کا بہانہ بنا کر کے فون بند کردیا جاتا۔۔
پہلے بڑے بہنوئی اور بہن نے قطع تعلق کیا کہ " میرے بچے اعلی اسکولوں میں پڑھتے ہیں، انکی پڑھائی پر برا اثر پڑے گا۔۔آخر ہم حاکم وقت سے ٹکر تو نہیں لے سکتے۔۔"

پھر بڑی بھابی نے بائیکاٹ کردیا کہ " اپنے گھر تک رہو۔۔ ہم نے خفیہ والے اپنے پیچھے نہیں لگوانے۔۔۔"

مکمل سوشل بائیکاٹ۔۔۔ شکر ہے اسے اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ دہراتے ہوئے بیریوں کے پتے نہیں کھانے پڑے۔۔ یا چمڑا ابال ابال کے بچوں کو نہیں پلانا پڑا۔۔ اگرچہ بھوک، پیاس اور خوف کی ایسی بہت سی راتیں گزریں۔۔

جن میں راشن ختم تھا اور وہ لوگوں کی نظروں سے ڈرتی گھر سے نہیں نکلتی تھی۔۔

آہ۔۔۔! وہ طویل تین سال۔۔۔!

اور پھر بدھ کی صبح جب دونوں بچیوں کو اسکول بھیج کر وہ زینب الغزالی کے مدرسے میں قرآن کی کلاس میں جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔۔

" سارہ عثمان " ایک اجنبی آواز گونجی۔۔
" جی بول رہی ہوں " اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔۔
" آپ سوموار کی صبح کو اسکندریہ سنٹرل جیل کے سامنے پہنچ جائیں۔۔ آپکی ملاقات ڈاکٹر عثمان اور آپکے بیٹے سے کروا دی جائے گی، ان کو رہا کیا جارہا ہے۔۔"

وہ کتنی ہی دیر ٹیلیفون ہاتھ میں لیے ساکت بیٹھی رہی۔۔ اسے اپنے کانوں پر اور اپنے سننے پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا، مگر پھر جیسے آہستہ آہستہ اسے اپنے ہونے کا یقین آیا۔۔ منجمد ہوتا خون زیادہ جوش سے رگوں میں دوڑنے لگا۔۔۔

" میں حارث اور عثمان کو دوبارہ دیکھوں گی، انھی آنکھوں کے ساتھ۔۔؟ میں انکو چھو سکوں گی، اپنے ہاتھوں کے ساتھ۔۔؟ میں اپنے بیٹے کو اپنے کلیجے سے لگا کے اس کے خوبصورت بالوں اور ماتھے کو چوم سکوں گی۔۔؟ جانے اس زخم سے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی۔۔؟ جانے وہ کتنا بڑا ہوگیا ہوگا۔۔؟ "
آنسو اسکی آنکھوں سے بہتے رہے۔۔

اسکندریہ میں دن طلوع ہورہا تھا۔۔ جب وہ اپنی دونوں بچیوں سمیت گاڑی سے اتری۔۔ دونوں نے اپنے خوبصورت پھولوں والے لباس پہن رکھے تھے۔۔ اس نے سر سے پاؤں تک نیلا لباس پہن رکھا تھا، جو عثمان کو بہت پسند تھا۔۔ کالے عبائے میں اسکی خوبصورت آنکھیں امید، گھبراہٹ اور خوشی سے چمک رہی تھیں۔۔ وہ عثمان سے پہلی بات کیا کرئے گی۔۔؟ کیا وہ اسے واقعی چھوڑنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔۔؟ کیا حالات بدل رہے ہیں۔۔؟ کیا وہ واپس ان کو لے کر جائے گی۔۔؟
وہ اپنے دھڑکتے دل کو قابو کرنے ٹیکسی میں آ بیٹھی تھی۔۔ اسکی دونوں بیٹیوں کے ہاتھوں میں پھول تھے۔۔ بھائی کے لیے چھوٹے چھوٹے تحفے تھے۔۔

ٹیکسی سے اترتے وہ دونوں جھگڑا کرنے لگیں۔۔
" بھائی کو سب سے پہلے میں ملوں گی۔۔"
" نہیں، میں بابا کے ہاتھ چوموں گی اور واپسی پر بابا کے ساتھ بیٹھوں گی۔۔"
" نہیں، میں بابا اور بھائی کے درمیان بیٹھوں گی۔۔"
" ارے ، ابھی ہم صرف انھیں ملنے آئے ہیں۔۔"
سارہ نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی۔۔

انکو دس بجے بلایا گیا تھا اور ابھی آٹھ بجے تھے۔۔ وہ سامنے بنے چھوٹے سے پارک میں آ کر بیٹھ گئی۔۔ بچیاں اسکے اردگرد بھاگنے دوڑنے لگیں۔۔
وقت جیسے تھم گیا تھا۔۔ ساڑھے آٹھ ہوئے، پھر نو اور پھر ساڑھے نو۔۔
" سارہ عثمان "
جیل کا پھاٹک کھلا اور ایک آدمی پکارا۔۔ وہ ڈولتے قدموں سے دروازے کی طرف بڑھی۔۔ بچیاں اس سے پہلے ہی گیٹ تک پہنچ گئی تھیں۔۔

" تم ہو ڈاکٹر عثمان کی بیوی۔۔؟ "
ایک موٹا تازہ آدمی جیل انسپکٹر کی وردی میں آگے بڑھا۔۔
" جی سر !"
" یہاں دستخط کر دو۔۔"
آدمی نے ایک کاغذ آگے بڑھایا۔۔ اس نے جلدی سے اپنا نام گھسیٹا۔۔
" تمھارے ساتھ کون ہے۔۔؟" اس نے پوچھا۔۔
" کوئی بھی نہیں، بس میں اور میری دونوں بچیاں۔۔"*
*" ٹھیک ہے ، خاموشی سے بیٹھو۔۔ "
اور پھر چند منٹوں کے بعد وہ ٹانگ سے پکڑ کے کسی کو گھسیٹتے ہوئے لائے۔۔۔ اسکے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔۔ سارہ نے دونوں بچیوں کو اپنے ساتھ لگا لیا کہ وہ کسی انسان کو اس حالت میں دیکھ کو ڈر نہ جائیں۔۔
" اسے خاموشی سے لے جاؤ اور یہیں کہیں دفن کر دو۔۔"
جیل کے انسپکٹر نے حکم سنایا۔۔

سارہ نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا۔۔ ہڈیوں کا ڈھانچا زخموں سے چور ایک شخص، ایک قابل ڈاکٹر، مسلمان قوم کا ایک بہترین دماغ۔۔ ایک اللہ کے دین کا محافظ اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں اس حالت کو پہنچ چکا تھا۔۔
وہ کارندے جو کفر کے لیے نرم چارہ اور اسلام کی خاطر معمولی سا بھی کام کرنے والوں کے لیے آگ اور فولاد تھے۔۔ انکے ہاتھوں، وہ گلشن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پھول اس حالت کو پہنچ چکا تھا کہ چہرے پر تشدد کے بےشمار نشان تھے۔۔ پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور پیٹ میں گولی لگی ہوئی تھی۔۔ مگر اسکے باوجود خوبصورت جذبوں سے رچی آنکھیں کھلی تھیں۔۔ یوں جیسے کہہ رہی ہوں۔۔!

" لو بھئی، دنیا کی سب سے خوبصورت خاتون تم لینے تو آئیں، مگر تم سے پہلے رحمت کے فرشتے پہنچ گئے۔۔ ابدی جنتوں میں لے جانے کے لیے۔۔ ابدی جنتیں چھوڑ کے گندی دنیا میں کون رہے، بس وہاں ملیں گے۔۔"

اسے لگا جیسے ایک دفعہ آنکھوں میں حرکت ہوئی ہو۔۔ اور ان آنکھوں سے ہی اس نے اسے پہچانا تھا۔۔ بچیاں خوف زدہ اور پھٹی پھٹی نظروں سے باپ کا کٹا پھٹا جسم دیکھ رہی تھیں۔۔ اس نے چند لمحوں کے لیے شوہر کی لاش سے نظر ہٹا کر اوپر دیکھا تو آنا ً فاناً جیسے دنیا ہی بدل گئی:

" اے میری بندی، کیا میں تیرے لیے کافی نہیں ہوں، میں جو رب السماوات والارض ہوں، میں جو طاقت کا منبع ہوں، میں اس سارے کھیل میں خالص کو نا خالص سے علیحدہ کر رہا ہوں۔۔ کیا میں تمھارے لیے کافی نہیں ہوں۔۔؟"

اور اس نے اسی زمین پر شکر کا سجدہ ادا کیا، جس پر عثمان کا خون گرا تھا۔۔ طویل سجدے کے بعد اس نے سر اٹھایا۔۔ اپنے ماتھے سے لگے شہید کے خون سے دونوں بچیوں کے ہاتھ پہ لکھا:

" شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔۔ جہاں جہاں شہید کا خون گرتا ہے، اللہ تعالٰی اس جگہ سے اسلام کی فوجیں پیدا کرتا ہے۔۔ تم دونوں بھی اللہ کی اسی فوج کی سپاہی ہو۔۔ باپ کے خون سے کبھی غداری نہ کرنا۔۔"

وہ ایک سکون اور وقار کے ساتھ دونوں بچیوں کو لے کر باہر سڑک پر آئی اور پوری قوت سے اونچی آواز میں کہا:

" کوئی ہے جو ایک شہید کا وارث بنے، وہ شہید جس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے اخوان المسلمون کے چند زخمی نوجوانوں کا علاج کیا تھا۔۔ کوئی ہے جو اسکو آخری منزل تک پہنچانے میں اسکی بےبس بیوی اور لاچار اور کمسن بچیوں کی مدد کرئے۔۔۔"

آن کی آن میں لوگ اکٹھے ہوگئے۔۔ ڈاکٹر عثمان کے جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔۔ وہیں پر بےشمار لوگوں نے اسکے بیٹے کی رہائی میں اسکی مدد کرنے کا وعدہ کیا اور اسکندریہ سے قاہرہ تک ٹرین کے سفر کے دوران برستی آنکھوں سے اس نے کئی دفعہ سوچا:

" کتنی باتیں ان کہی رہ گئیں اور کتنی باتیں پوچھنے والی رہ گئیں۔۔ تم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، تم نے اس دین پر اپنا آپ وار دیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔۔ اب میرے لیے مشکل منزل ہے۔۔ ننھے بچوں کا ساتھ ہے اور اردگرد بھیڑیے بستے ہیں۔۔ مگر میں تمھاری شکر گزار ہوں کہ تم نے میرا سب سے غالب اور سب سے طاقتور ہستی کے ہاتھوں میں ہاتھ دیا ہے۔۔ تم خدا سے دعا کرنا کہ میں تمھاری متعین کردہ راہوں پر تمھارے بچوں سمیت چل سکوں۔۔ آمین "

آئیے مسلمان خون سے رنگین ہوتی اس دنیا میں ہم بھی اپنا حصہ ڈالیں، ظالم کا ہاتھ پکڑ کر، مظلوم کی کسی بھی طرح مدد کرکے اپنے لفظوں، اپنی دعاؤں سے، اپنی زندگیوں سے گمراہیوں کو نکال کے۔۔ عیش و آرام کی قربانی دے کر۔۔ دشمنوں کی صحیح پہچان سے۔۔ دشمنوں کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہو کر۔۔ مگر سب سے پہلے آپس میں خون بہانا بند کرکے کہ جس نے ناحق کسی کلمہ گو کو قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا۔۔

اللہ تعالٰی ہمیں اس سیاہ دور سے نکالے۔۔ آمین یارب العالمین


अस्सलाम अलैकुम मेरे प्यारे कुंद दोस्त
आप सभी का मेरे बरोघ में स्वागत है
साथ ही, आशा है कि आप सब ठीक होंगे


"यह कौन सा युग है, मेरे भगवान?"
"मैं किस काल में पैदा हुआ..???"

  • "मेरे अल्लाह, क्या आपको पवित्र पैगंबर (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) का असली मालिक और पैगंबर मानने के लिए यह इतनी बड़ी सजा है?" *

"यह सब झगड़ा किस बारे में है?"
इस घटना से कुछ हफ्ते पहले एक दिन उसने उस्मान से पूछा था। "वे भी मुसलमान हैं। वे नमाज़ अदा करते हैं, हज करते हैं। वे अल्लाह को भी अल्लाह मानते हैं, और अंतिम दिन के पैगंबर को अपना पैगंबर मानते हैं। फिर यह विवाद क्यों?"

"बहुत आसान"
उस्मान हँसा।
*"वे अल्लाह को अल्लाह मानते हैं, जब उन्हें किसी भी मुसीबत में अल्लाह की ज़रूरत होती है। वे अपने घरों में कुरान को एक आशीर्वाद के रूप में रखते हैं, उन्हें अपने मृतकों को प्रसन्न करने या शादी सिखाने के लिए कुरान की आयतों की आवश्यकता होती है। बाकी ईसाई, अपनी उम्मत को बेचकर यहूदियों के हाथ, अपनी प्रजा से सौदेबाजी करते हुए, अपने जवानों को धन के लिए बेच देते हैं, जो अविश्वास के हॉल को कांपते हैं, वे एक पल के लिए भी नहीं हिचकिचाते हैं। लाभ के लिए न्याय का खून बहाकर, अपने घरेलू में इसे मना करके जीवन, वे एक पल के लिए भी नहीं सोचते कि उनकी कानून की किताब में क्या लिखा है।

"ये वे मुसलमान हैं जिन पर यहूदियों को शर्म आनी चाहिए।"

"सुनो सारा, यह इस्लाम के नाम पर इस्लाम का शोषण करने वाले पाखंडियों, सशस्त्र और निहत्थे लोगों की सेना है। वे ईसाई और यहूदियों की तुलना में अपने दिल में इस्लाम के कार्यान्वयन के खिलाफ हैं। इसलिए इस्लाम वे उसके खिलाफ और भी अधिक साजिश करते हैं उनकी तुलना में।"

आह ..! उसके पैरों से दर्द की लहर उठी। उसे नहीं पता था कि वह कितने घंटे से इस जगह पर खड़ा था। यह तहज्जुद का समय था। कमरे में लौटकर एक बार फिर वह एक और याद में डूबी हुई थी।

बाप-बेटे दोनों को गए तीन साल बीत चुके थे। तीन लंबे साल। इन तीन वर्षों में फैले, सैकड़ों लंबे दर्दनाक और प्रतीक्षा के दिन, सैकड़ों लंबी अकेली और भयावह रातें।

शुरुआत में उन्हें और उनकी बेटियों को भी बहुत प्रताड़ित किया गया, लेकिन धीरे-धीरे उन्हें थाने जाने से छूट दे दी गई। लेकिन वो दो पति-पत्नी, जो अपने सर्कल में बेहद लोकप्रिय और प्यार करने वाले थे। धीरे-धीरे लोग उनसे कटने लगे।
अगर वह कभी किसी के घर जाती तो परिवार को कहीं न कहीं जाना ही पड़ता। अगर उसने किसी को फोन किया, तो आवाज की समस्या के बहाने फोन बंद कर दिया जाएगा।
पहले बड़े देवर और बहन ने बताया कि "मेरे बच्चे हाई स्कूल में पढ़ते हैं, इससे उनकी पढ़ाई पर बुरा असर पड़ेगा। आखिर हम शासक से टकरा नहीं सकते।"

तब बड़ी भाभी ने यह कहकर बहिष्कार किया कि "अपने घर में रहो। हम गुप्त लोगों को अपने पीछे नहीं आने देंगे।"

पूर्ण सामाजिक बहिष्कार। शुक्र है कि उन्हें अपने पूर्वजों के इतिहास को दोहराते हुए जामुन के पत्ते नहीं खाने पड़े। या चमड़े के किण्वन के बच्चों को खिलाना नहीं पड़ता था। हालांकि भूख, प्यास और डर की ऐसी कई रातें थीं।

उनमें से राशन खत्म हो गया और वह लोगों की आंखों के डर से घर से नहीं निकली।

आह...! इतने लंबे तीन साल!

और फिर बुधवार की सुबह, दोनों लड़कियों को स्कूल भेजने के बाद, वे ज़ैनब अल-ग़ज़ाली के मदरसा में कुरान की कक्षा में जाने की तैयारी कर रहे थे, तभी फोन की घंटी बजी।

"सारा उस्मान" एक अजीब सी आवाज गूँज उठी।
"मैं बोल रहा हूँ" उसका दिल तेजी से धड़कने लगा।
"आपको सोमवार सुबह अलेक्जेंड्रिया सेंट्रल जेल के सामने पहुंचना चाहिए। डॉ उस्मान और आपके बेटे से मुलाकात होगी, उन्हें रिहा किया जा रहा है।"

वह कितनी देर तक हाथ में फोन लेकर बैठी रही? उसे अपने कानों पर और जो कुछ सुन रहा था उस पर विश्वास नहीं हो रहा था, लेकिन फिर धीरे-धीरे उसे खुद पर यकीन हो गया। नसों में जमा हुआ खून और भी जोश के साथ दौड़ने लगा।

  • "मैं हारिस और उस्मान को फिर देखूंगा, उन आंखों से? मैं उन्हें अपने हाथों से छू पाऊंगा? मैं अपने बेटे को अपनी गोद में रख सकूंगा और उसके सुंदर बालों और माथे को चूम सकूंगा। कितना दर्द है। यह घाव तो दिया होगा..? कितना बड़ा हो गया होगा..? "*
    उसकी आंखों से आंसू छलक पड़े।

अलेक्जेंड्रिया में दिन ढल रहा था। जब वह अपनी दोनों बेटियों के साथ कार से नीचे उतरी। दोनों ने अपनी खूबसूरत फ्लोरल ड्रेस पहनी हुई थी। उन्होंने सिर से पांव तक नीले रंग की ड्रेस पहनी हुई थी, जो उस्मान को बेहद पसंद आई। काले वस्त्रों में उसकी सुन्दर आँखें आशा, घबराहट और खुशी से चमक रही थीं। वह पहले उस्मान से क्या कहेंगी? क्या उन्होंने वाकई इसे छोड़ने का फैसला किया है? क्या स्थितियां बदल रही हैं? क्या वह उन्हें वापस ले जाएगी?
वह अपने धड़कते दिल को नियंत्रित करने के लिए टैक्सी में बैठी थी। उनकी दोनों बेटियों के हाथों में फूल थे। मेरे भाई के लिए छोटे-छोटे उपहार थे।

टैक्सी से उतरते ही दोनों में बहस होने लगी।
"मैं पहले अपने भाई से मिलूंगा।"
"नहीं, मैं बाबा का हाथ चूमूंगा और लौटकर बाबा के साथ बैठूंगा।"
"नहीं, मैं बाबा और भाई के बीच बैठूंगा।"
"अरे, हम अभी उनसे मिलने आए हैं।"
सारा ने उन्हें समझाने की कोशिश की।

उन्हें दस बजे बुलाया गया था और अभी आठ बज रहे थे। वह आई और सामने के छोटे से पार्क में बैठ गई। लड़कियां उसके इर्द-गिर्द दौड़ने लगीं।
समय रुक गया था। साढ़े आठ बज रहे थे, फिर साढ़े नौ और फिर साढ़े नौ।
"सारा उस्मान"
जेल का फाटक खुला और एक आदमी ने पुकारा। वह काँपते कदमों से दरवाजे की ओर चल पड़ी। लड़कियां पहले ही गेट पर पहुंच चुकी थीं।

"क्या आप डॉ. उस्मान की पत्नी हैं?"
जेल इंस्पेक्टर की वर्दी में एक मोटा फ्रेशमैन आगे बढ़ा।
"जी श्रीमान!"
"यहाँ पर हस्ताक्षर करे।"
आदमी ने एक कागज निकाला। उसने जल्दी से अपना नाम खींच लिया।
"तुम्हारे साथ कौन है?" उसने पूछा।
"कोई नहीं, बस मैं और मेरी दो लड़कियां।"

  • "ठीक है, चुपचाप बैठो।"
    और फिर कुछ मिनटों के बाद उन्होंने किसी को पैर से घसीटा। उसके शरीर से खून बह रहा था। सारा दोनों लड़कियों को अपने साथ ले गई ताकि वे किसी इंसान को इस हालत में देखने से न डरें।
    "उसे चुपचाप ले जाओ और उसे यहीं कहीं दफना दो।"
    जेल निरीक्षक ने आदेश दिया।

सारा ने आंखें उठाईं और सामने देखा। एक व्यक्ति जिसकी हड्डी की संरचना घावों से मुक्त है, एक सक्षम चिकित्सक, मुस्लिम राष्ट्र का उत्कृष्ट दिमाग। अल्लाह के धर्म का एक रक्षक अपने ही लोगों के हाथों इस राज्य में पहुंचा था।
वो मजदूर जो अविश्वास के लिए नरम चारा और इस्लाम के लिए थोड़ा काम करने वालों के लिए आग और स्टील थे। उनके हाथों में गुलशन रसूल का फूल (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) ऐसी स्थिति में पहुंच गया था कि चेहरे पर हिंसा के कई निशान थे। पसलियां टूट गई थीं और पेट में गोली लगी थी। लेकिन इसके बावजूद खूबसूरत जज्बातों से भरी आंखें खुली थीं. जैसा कह रहा हूँ..!

"भैया, दुनिया की सबसे खूबसूरत महिला आपको लेने आई थी, लेकिन दया के फरिश्ते आपके सामने आ गए। आपको शाश्वत स्वर्ग में ले जाने के लिए। जो शाश्वत स्वर्ग को छोड़कर गंदी दुनिया में रहेंगे, वे आपसे वहीं मिलेंगे । "*

उसे लगा जैसे उसकी आँखें एक बार हिल गई हों। और उसने उसे उन आँखों से पहचान लिया। लड़कियां अपने पिता के क्षत-विक्षत शरीर को भयभीत और अश्रुपूर्ण निगाहों से देख रही थीं। उसने कुछ पल के लिए अपने पति के शरीर से नज़रें हटा लीं और ऊपर देखा, और अचानक दुनिया बदल गई:

  • "हे मेरे दास, क्या मैं तुम्हारे लिए पर्याप्त नहीं हूं, मैं जो आकाश और पृथ्वी का स्वामी हूं, मैं जो शक्ति का स्रोत हूं, मैं इस पूरे खेल में शुद्ध को अशुद्ध से अलग कर रहा हूं। क्या मैं पर्याप्त नहीं हूं तुम्हारे लिए?" "...?"*

और जिस जमीन पर उस्मान का खून गिरा था, उसी जमीन पर उसने कृतज्ञतापूर्वक साष्टांग प्रणाम किया। काफी देर तक प्रणाम करने के बाद उसने सिर उठाया। अपने माथे पर शहीद के खून से, उसने दो लड़कियों के हाथों पर लिखा:

*"शहीदों का खून कभी बर्बाद नहीं होता। शहीद का खून जहां गिरता है, वहां से अल्लाह इस्लाम की सेना बनाता है। तुम दोनों एक ही अल्लाह की सेना के सिपाही हो। अपने पिता के खून के साथ कभी विश्वासघात मत करो।" इसे करें।"

शांति और गरिमा के साथ, वह दोनों लड़कियों को बाहर गली में ले गई और अपनी पूरी ताकत से ऊंचे स्वर में कहा:

*"एक शहीद का वारिस बन जाता है, एक शहीद जिसका गुनाह सिर्फ इतना था कि उसने मुस्लिम ब्रदरहुड के कुछ घायल युवकों का इलाज किया। एक है जिसकी पत्नी लाचार और लाचार और जवान है उसे उसकी आखिरी मंजिल तक ले जाने के लिए। लड़कियों की मदद करें।

ओं की ऑन में लोग जमा हो गए। डॉ. उस्मान के अंतिम संस्कार में हजारों लोग शामिल हुए। वहाँ, अनगिनत लोगों ने उसके बेटे को छुड़ाने में उसकी मदद करने का वादा किया, और अलेक्जेंड्रिया से काहिरा की ट्रेन यात्रा के दौरान, उसने कई बार आंसू भरी आँखों से सोचा:

"कितनी बातें अनकही रह गईं और कितनी बातें पूछनी बाकी रह गईं। आप पैगंबर के प्रेमी थे, शांति और आशीर्वाद उन पर हो। आपने अपना जीवन धर्म को दिया कि पैगंबर, शांति और आशीर्वाद उन पर हो , लाया। अब मेरे लिए मुश्किल है। मंजिल है। छोटे बच्चे तुम्हारे साथ हैं और भेड़िये रहते हैं। मैं तुम्हारे बच्चों के साथ नियत रास्तों पर चल सकता हूँ। आमीन"

आइए हम मुस्लिम खून से रंगी इस दुनिया में अपना हिस्सा करें, अत्याचारी का हाथ पकड़कर, किसी भी तरह से उत्पीड़ितों की मदद करके, और अपने शब्दों से, अपनी प्रार्थनाओं से और अपने जीवन से त्रुटियों को दूर करके। विलासिता का त्याग करके। दुश्मनों की सही पहचान से। दुश्मनों की ताकत और कमजोरियों से अवगत होना। लेकिन सबसे पहले आपस में खून-खराबे को रोककर जिसने भी एक वक्ता को अन्यायपूर्ण तरीके से मारा, मानो उसने पूरी मानवता को मार डाला।

अल्लाह हमें इस अंधकारमय युग से बाहर निकाले। अमीन


Posted from https://blurtlatam.com

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!